Written by prs.adminSeptember 25, 2012
(Pakistan fire a disaster waiting to happen) سانحہ کراچی
Asia Calling | ایشیا کالنگ . General Article
کراچی میں گزشتہ دنوں ایک فیکٹری میں آتشزدگی سے ڈھائی سو سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے، اس سانحے سے پاکستان میں فیکٹریوں کی خطرناک صورتحال کھل کر سامنے آگئی۔
پچاس سالہ رقیہ احمد بلدیہ ٹاﺅن کراچی کی تباہ شدہ فیکٹری کے باہر دیوانہ وار اپنے پچیس سالہ بیٹے کو تلاش کررہی ہیں۔
رقیہ احمد(female) “اگر میرا بیٹا زندہ نہ ملا تو میں خودکشی کرلوں گی۔ انتطامیہ کو یہ احساس کرنا چاہئے کہ بغیر باپ کے بچوں کی پرورش کتنا مشکل کام ہے”۔
رقیہ کا بیٹا کمال احمد اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا، اس فیکٹری میں متعدد لاشیں اتنی بری طرح جھلس گئی تھیں کہ ان کی شناخت ناممکن ہوگئی تھی۔ اس فیکٹری میں جب آگ لگی تو وہاں کام کرنے والے افراد کے پاس چار منزلہ عمارت سے باہر نکلنے کیلئے وقت کم تھا یا انہیں راستہ ہی نہیں ملا، یہی وجہ ہے کہ متعدد افراد نے کھڑکیوں سے چھلانگیں لگادیں، جس کے باعث درجنوں افراد کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں۔ عبدالوحید بھی تیسری منزل سے چھلانگ لگا کر بچنے میں کامیاب رہے تھے۔
عبدالوحید(male) “فیکٹری کے اندر بالکل اندھیرا تھا، ہر شخص جہاں موجود تھا وہیں رک گیا تھا۔ اندر دھویں کی وجہ سے سانس لینا بھی ناممکن ہوگیا تھا”۔
درحقیقت زہریلے دھویں سے بھی متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔کاشان کاشف اس سانحے کے تحقیقات کیلئے قائم آزادانہ کمیشن کے رکن ہیں۔
کاشان(male) “وہاں fire extinguishers تو موجود تھے مگر کارکنوں کو اسے چلانے کی تربیت ہی نہیں دی گئی تھی۔ فیکٹری میں ہنگامی حالات میں باہر نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ کراچی شہر میں درحقیقت بہت کم فیکٹریوں میں کارکنوں کے تحفظ کیلئے مناسب انتظامات کئے گئے ہیں۔ حکومتی انسپکٹرز، جنھیں کارخانوں کا معائنہ کرنا چاہئے، رشوت لیکر سب اچھا ہے کی رپورٹ دیدیتے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں کہ ایسا حادثہ واقعہ پیش آیا ہو”۔
رﺅف صدیق اس واقعے کے وقت سندھ کے وزیر صنعت تھے، وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
رﺅف(male) “قانونی کارروائی جاری رہے گی، جبکہ فیکٹری مالکان کو ہر جاں بحق شخص کے ورثاءکو پانچ لاکھ جبکہ ہر زخمی کو دو لاکھ روپے دینے کا حکم دیا گیا ہے”۔
فیکٹری کے مالک شاہد بھائیلہ کا کہنا ہے کہ وہ جاں بحق افراد کے ورثاءاور زخمیوں کو معاوضہ ادا کریں گے۔
تاہم انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ اتنی زیادہ ہلاکتیں فائر فائٹرز کے ناقص ردعمل کی وجہ سے ہوئیں۔ خصوصاً ایک بار تو فائر انجنز کا پانی تک ختم ہوگیا تھا۔ مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بدانتظامی کے باعث اس طرح کا حادثہ کسی بھی وقت ہوسکتا تھا۔ کروڑوں روپے سالانہ کمانے کے باوجود فیکٹری ملازمین کو روزانہ صرف تین سے پانچ سو ر وپے تک ادا کئے جارہے تھے۔کراچی کے ساتھ ساتھ اسی روز لاہور میں بھی ایک جوتا بنانے والی فیکٹری میں آتشزدگی سے اکیس افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔شمس الرحمن سواتی پاکستان نیشنل لیبر فیڈریشن کے صدر ہیں۔
شمس الرحمن(male) “یہ صرف حادثہ نہیں بلکہ معصوم افراد کا قتل ہے۔ صنعتی قوانین میں یہ بات واضح ہے کہ ہر صنعتی مرکز میں انتظامیہ کو حفاظتی اقدامات کو یقینی بنانا چاہئے۔ مگر قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوتا، مثال کے طور پر کراچی کی علی انٹرپرائز نامی متاثرہ فیکٹری میں دو ہزار سے زائد افراد ملازم تھے، مگر ان میں سے صرف ڈھائی سو سے زائد ہی محکمہ محنت کے پاس رجسٹرڈ تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ باقی افراد غیرقانونی طور پر رکھے گئے تھے، یہ بات تو سب کو ہی معلوم ہے کہ حکومتی مشینری نے سرمایہ داروں سے ہاتھ ملا رکھے ہیں”۔
حکومت نے اس سانحے کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کردیا ہے، جس کی سربراہی ہائیکورٹ کے ریٹائرڈ جج کررہے ہیں۔ تاہم لیبر یونینز اور سول سوسائٹی کے گروپس کو اس کمیشن پر اعتماد نہیں۔ سید شمس الدین ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سندھ میں کوآرڈنیٹر ہیں۔
سید شمس الدین(male) “میرے خیال میں حکومتی کمیشن کو آزادنہ تحقیقات کے بعد رپورٹ کو عام کرنا چاہئے، مگر ہم نے اب تک دیکھا ہے کہ اس طرح کے کمیشنز کی رپورٹ خفیہ رکھی جاتی ہے جبکہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی۔”
کمیشن کی رپورٹ میں مستقبل میں ایسے حادثات سے بچنے کیلئے سفارشات پیش کئے جانیکا امکان ہے۔ تاہم سید شمس الدین ذمہ داران کو بھی سزا ملتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
سید شمس الدین(male) “ہماری رائے میں یہ مجرمانہ غفلت ہے۔ تو اس معاملے کی تحقیقات کرکے اس کی رپورٹ خفیہ رکھنے کے بجائے عوام کے سامنے پیش کی جائے اور تمام ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply