Pak China Friendship پا ک چین دو ستی
عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم وین جیا باو¿ پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پرگزشتہ ہفتے اسلام آباد آئے، اس دورے کے دوران دونوں ممالک نے 2011ءکو پاک چین دوستی کے سال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔دونوں ممالک کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم اصول ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ ہے اور تمام عالمی معاملات اور تنازعات پر دونوں ممالک ایک ہی رائے کا اظہار کرتے آئے ہیں۔خارجہ امور کے ماہر طارق فاطمی کا کہنا ہے کہ پاکستان کا استحکام چین کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان باقاعدہ تعلقات کا آغاز 1950 ءمیں ہوا تھا۔ پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے 1950 ءمیںچین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا،تاہم دونوں ممالک کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات31 مئی1951ءمیں قائم ہوئے۔دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایاں گرم جوشی 1962 کی چین بھارت سرحدی جنگ کے بعد پیدا ہوئی ۔ 1965 ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران چین نے پاکستان کو خاصی مدد فراہم کی،جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان فوجی اور اقتصادی رابطوں میں مزید گرم جوشی پیدا ہوئی۔ 1970 ءمیں پاکستان نے چین اور مغربی دنیا کے درمیان براہِ راست رابطوں کو ممکن بنایا،جس کے نتیجے میں 1972 ءمیں امریکی صدررچرڈ نکسن چین کا سرکاری دورہ کرنے والے پہلے مغربی رہنما بنے۔ پاکستان نے چین کو اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورم کا کا رکن بننے میں مدد فراہم کرنے کے علاوہ اس کے اسلامی دنیا کے ساتھ رابطوں کے قیام اورتعلقات کے فروغ کےلیے اہم خدمات انجام دیں۔مسلم لیگ ق کے سیکرٹری جنرل مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ چین کے بھارت کیساتھ اقتصادی تعلقات ہیں جبکہ پاک چین تعلقات کی نہج تبدیل ہوچکی ہے۔
1978ءمیں چین اور پاکستان کے درمیان پہلے اور اب تک کے واحد زمینی راستے قراقرم ہائی وے کا باقاعدہ افتتاح ہوا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور رابطوں میں اضافہ ہوگیا۔چین ہمیشہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ تنازع مسئلہ کشمیر پر پاکستانی موقف کی حمایت کرتا آیا ہے۔ جواباً پاکستان عالمی برادری کے موقف کے برعکس تائیوان اور تبت کے تنازعات اور انسانی حقوق سمیت دیگر معاملات کو چین کا اندرونی معاملہ قرار دیتا ہے۔انگریزی کے معروف روزنامہ ڈان سے تعلق رکھنے والے سنئیر صحافی شمیم الرحمن کا کہنا ہے کہ چینی وزیراعظم نے پاکستان آنے سے قبل اپنے دورہ بھارت میں کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر زور دیا تھا۔
گزشتہ 20برسوں کے دوران چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات اور تعاون میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور کئی مشترکہ فوجی اور اقتصادی منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کے اہم منصوبوں میں 2001 ءمیں الخالد ٹینک، 2007 ءمیں لڑاکا طیارے جے ایف -17 تھنڈر، 2008 ءمیں ایف-22 پی فریگیٹ اور کے-8 قراقرم ایڈوانسڈ تربیتی طیاروں کی تیاری سمیت دفاعی میزائل پروگرام میں قریبی اشتراک شامل ہے۔
پاکستان اور چین 1984ءسے جوہری توانائی کے میدان میںایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون کرتے آرہے ہیں۔ 1999 ءمیں چین کی جانب سے چشمہ میں300 میگا واٹ کاجوہری بجلی کا پلانٹ پایہ تکمیل کو پہنچا جبکہ اسی سلسلے کا ایک اور پراجیکٹ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔چین نے پاکستانی شہر خوشاب کے نزدیک واقع جوہری مرکز کی تعمیر میں بھی تعاون فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔1990 ءمیں پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ سہولیات نہ ہونے کے باعث ایک چینی اسٹیشن سے ہی خلاءمیں بھیجا گیا تھا ۔ پاکستان کی بندرگاہ گوادر بھی چینی تعاون سے ہی تعمیر کی گئی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت کا حجم اس وقت 7 ارب ڈالرز سالانہ ہے،جسے 2011 ءتک 15 ارب ڈالرز تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔انجینئیرخرم دستگیر خان مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے چیئرمین ہیں۔
2008ءمیں دونوں ممالک نے قراقرم ہائی وے کے ساتھ ساتھ ریلوے ٹریک بچھانے پر بھی اتفاق کیا،جس سے چینی مصنوعات کو براہِ راست گوادر پورٹ تک رسائی مل جائے گی۔اس کے علاوہ چین اپنے صوبے سنکیانگ سے منسلک پاکستانی علاقے گلگت بلتستان میں بھی سڑکوں اور کئی دیگر پروجیکٹس کی تعمیر میں سرمایہ کاری کررہا ہے۔2005 ءمیں پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے اوررواں سال سیلاب سے نمٹنے کےلیے بھی چین نے پاکستان کو کروڑوں ڈالرکی امداد فراہم کی۔چینی وزیرِ اعظم کے حالیہ دورے سے دونوں ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کے مزید فروغ کے لئے 37 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ،جن سے 25ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔اپنے دورے کے آخری روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیراعظم نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستانی کاوشوں کو سراہا۔انھوں نے پاکستان سے کئے گئے تمام وعدے پورے کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
امید ہے کہ وزیراعظم وین جیاباﺅ کے دورے سے پاک چین دوستی نئے دور میں داخل ہوگی اور دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے کے مزید قریب آئیں گے۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply