Written by prs.adminSeptember 15, 2012
(North Korea Peeping Tour)شمالی کورین سیاحت
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Business Article
چین کا سرحدی شہر Dandong شمالی کوریا میں سیاحت کے لئے شہرت رکھتا ہے۔ دریائے Yalu دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا کام کررہا ہے اور یہ جگہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بن چکی ہے
صبح کے وقت آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہیں اور ہم اس وقت دریائے Yalu میں چین کی ایک سیاحتی کشتی کی سیر کررہے ہیں۔یہ دریا چین اور شمالی کوریا کے درمیان سرحد سمجھا جاتا ہے
کشتی سے شمالی کورین سرزمین پر کچھ نظر نہیں آرہا جس کی وجہ وہاں تعمیر ایک بلند و بالا پشتہ ہے، تاہم جب ہم اس کے قریب پہنچے تو شمالی کورین سیکیورٹی اہلکار ایک کشتی میں ہمارے قریب آئے اور ہمیں تصاویر لینے سے روکنے لگے۔
عام طور پر دریائے Yalu میں روزانہ دس ہزار کے قریب سیاح شمالی کورین سرزمین دیکھنے کیلئے آتے ہیں۔چینی ٹور گائیڈ Cai Li Li کا کہنا ہے کہ یہ ٹور سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔
(female) Cai Li Li “اگر آپ Dandong میں ہو اور دریائے Yalu کی سیر کرکے شمالی کوریا کی پراسرار سرزمین کا نظارہ نہ کرسکے، تو اس کا مطلب ہے کہ آپ یہاں کبھی آئے ہی نہیں۔ یہ دریا دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ سرحد ہے، جب تک ہم پانی میں رہتے ہیں تو تیکنیکی طور پر ہم شمالی کورین علاقے میں داخل سمجھے نہیں جاتے۔یہی وجہ ہے کہ چینی کشتیاں شمالی کورین ساحل کے زیادہ سے زیادہ قریب جاتی ہیں، تاکہ سیاح شمالی کوریا کے عام لوگوں کی زندگی کا معائنہ کرسکیں”۔
Dandong میں حالیہ برسوں کے دوران سیاحت کی صنعت نے تیزرفتار ترقی کی ہے، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ چھ برس کے دوران اس شہر میں سیاحوں کی آمد میں 430 فیصد اضافہ ہوا، صرف گزشتہ برس ہی سیاحت کی صنعت سے چار ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی، اس دوران دو کروڑ ستر لاکھ مقامی و غیرملکی سیاح یہاں آئے۔
سیاحوں کی بسیں دریا کے کنارے قطار میں کھڑی ہیں، تاہم سوال یہ ہے کہ سیاح یہاں کیوں آتے ہیں؟ ایک ڈچ سیاح مارٹن اس کا جواب دے رہے ہیں۔
ڈچ ٹورسٹ(male) “شمالی کوریا ایک بہت بڑا راز لگتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاح یہاں آتے ہیں، میرے خیال میں تو یہ چین کی معیشت کیلئے ایک اچھی چیز ہے”۔
گزشتہ برس Dandong آنے والے سیاحوں کی بہت کم تعداد شمالی کورین سرزمین میں قدم رکھ سکی، اس میں سے ایک چینی سیاح Ma بھی ہیں۔
چینی ٹورسٹ(female) “میرے جیسے لوگ جن کی عمریں پچاس سال سے زائد ہیں، کو اچھی طرح یاد ہے کہ 1960ءاور 70ءکی دہائی میں چین کیسا تھا، اب جب ہم شمالی کوریا جاتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم ایک بار پھر چین کے ماضی میں پہنچ گئے ہیں”۔
دریائے Yalu کے چین کی جانب سے کنارے پر سیاح روایتی کورین ملبوسات پہن کر تصاویر کھچواتے ہیں، اس وقت شمالی کورین سرزمین ان کی پشت پر نظر آرہی ہوتی ہے۔ اسی طرح تصاویر لینے کیلئے ایک اور معروف جگہ Yalu Broken Bridge ہے، یہ وہ جگہ ہے جس پر امریکہ نے 1950ءمیں جنگ کوریا کے دوران بمباری کی تھی۔اب اس پل یا برج کا آدھا حصہ ہی سلامت ہے اور سیاح یہاں چہل قدمی کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔
پل کے اختتام پر شمالی کوریا کی سرزمین میں ایک پلیٹ فارم نظرآتا ہے۔ پل پر دوربین بھی دو منٹ کیلئے ایک ڈالر کے کرائے پر دی جاتی ہے، تاہم ہر سیاح اسے استعمال کرنے کا خواہشمند نہیں ہوتا، ڈچ سیاح مارٹن اس بارے میں بتارہے ہیں۔
ڈچ ٹورسٹ(male) “میں نے دوربین کیلئے رقم خرچ نہیں کی، اس کے ذریعے ہم دس کلومیٹر دور تک تو دیکھ سکتے ہیں، مگر اس سے شمالی کورین سرزمین کے اسرارسامنے نہیں آسکتے۔ آپ کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہاں لوگ کیا کررہے ہیں”۔
یہاں شمالی کوریا کی یادگاری مصنوعات بھی فروخت کی جاتی ہیں۔ ایک جرمن سیاح Dandong سے شمالی کورین سرزمین کے نظارے سے زیادہ مطمئن نہیں۔
جرمن ٹورسٹ(male) “میں ہر سرگرمی میں حصہ نہیں لے رہا، یہ ٹھیک ہے کہ شمالی کوریا نظر آرہا ہے، مگر ہماری تسلی نہیں ہورہی”۔
سوال” کیا آپ کو کوئی شمالی کورین شہری نظر آیا؟
ٹورسٹ(male) “جی ہاں کشتی میں سفر کے دوران ہم نے متعدد شمالی کورین افراد کو دیکھا، تاہم انھوں نے ہمیں دیکھ کر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا”۔
سوال”ردعمل سے آپ کی کیا مراد ہے؟
ٹورسٹ(male)”شمالی کورین افراد کو کسی قسم کے جذبات کا تو اظہار کرنا چاہئے”
سوال” آپ ان سے کیا توقعات وابستہ کئے ہوئے تھے؟
ٹورسٹ(male) “میرے خیال میں انہیں کسی قسم کے ردعمل کا اظہار تو کرنا چاہئے جیسے ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے یا اسی قسم کا کوئی خیرمقدمی اشارہ، تاہم انھوں نے تو کچھ بھی نہیں کیا”۔
اگرچہ یہاں بہت سے افراد شمالی کورین سرزمین دیکھنے آتے ہیں، مگر ٹورگائیڈ Cai Lili کا کہنا ہے کہ جنوبی کورین سیاح مختلف ہوتے ہیں۔
(female) Cai Lili “ہمارے متعدد جنوبی کورین صارفین اپنے ہمراہ مچھلیاں لاتے ہیں، جنھیں وہ کشتی کی سیر کے دوران دریا میں چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ شمالی کورین افراد کو اپنے خاندان کا حصہ سمجھتے ہیں، چونکہ شمالی کوریا میں لوگوں کو خوراک کی قلت ہے یہی وجہ ہے کہ جنوبی کورین سیاح ان کی مدد کی کوشش کرتے ہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply