
Written by prs.adminJune 24, 2013
No Houses for Foreigners in Yangon – برما میں غیرملکیوں کو رہائش کی مشکلات
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
غیر ملکی کاروبار کیلئے کھلنے کے بعد سے برما میں کام کی غرض سے آنے والے غیرملکیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، تاہم برطانوی سامراج کے عہد سے نافذ ملکی شہری نہ ہونے کے حوالے سے سخت رہائشی قوانین کا اطلاق اب بھی ہورہا ہے، جس کی وجہ سے غیرملکیوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
ڈیوڈ نے ینگون میں ہاﺅسنگ مشیر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، وہ اس شہر میں تین برس سے مقیم ہیں۔
ڈیوڈ”میرا نہیں خیال کہ رسد میں کوئی بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے، اسی طرح میرے خیال میں یہاں غیرملکیوں کی رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لئے زیادہ تیزی سے کام نہیں ہورہا۔ میرے خیال میں ابھی بھی یہاں کافی جگہ موجود ہیں جو کرائے کیلئے دستیاب ہے”۔
برما میں بیشتر افراد گھروں کی تعمیر میں پیسہ لگانے سے ڈرتے ہیں، جس کی وجہ یہاں کافی طویل عرصے تک فوجی حکومت قائم رہنا ہے، جبکہ متعدد افراد ایسے ہیں جو غیرملکیوں کو گھر دینے کی بجائے انہیں خالی رکھنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
ڈیوڈ”یہاں بہت سے لوگ ہاتھوں میں پیسے لیکر گھومتے ہیں، میں خود بھی جب پہلی بار یہاں آیا تو رقم میرے ہاتھ میں تھی، مگر اس کے باوجود مجھے کافی عرصہ اپنے سامان کیساتھ گلیوں میں گزارنا پڑا اور جب بھی میں اپنے ایجنٹ کا پاس جاتا تو وہ بتایا کہ فلاں مالک مکان نے ایک غیرملکی کو کرائے پر گھر دینے سے انکار کردیا ہے”۔
جبپاول مینولیٹی نے نئے گھر کی تلاش شروع کی تو انہیں بھی اسی صورتحال کا سامنا ہوا۔
پال”بروکر نے مجھے ایک گھر دکھایا، وہ اچھی جگہ تھی اور ہمارے درمیان قیمت پر بھی اتفاق ہوگیا۔ پھر میں بینک گیا اور اپنی رقم کو مقامی کرنسی میں تبدیل کرایا تاکہ ایک سال کا کرایہ فوری طور پر ادا کردوں۔ پھر میں واپس پہنچا تو مالک مکان نے اپنے وکیل سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، کیونکہ اس سے پہلے اس نے کبھی غیرملکیوں کو اپنی جائیداد کرائے پر نہیں دی تھی اس لئے وہ وکیل سے بات کرنا چاہتی تھی۔ اس وکیل نے غیرملکی شخص کو کرائے پر گھر نہ دینے کا مشورہ دیا، کیونکہ یہ عمل کافی پیچیدہ اور مہنگا ثابت ہوسکتا تھا”۔
متعدد افراد غیرملکیوں کو برما میں گھر دینے کا انتہائی خطرناک سمجھتے ہیں،اس حوالے سے سرکاری قوانین بھی برطانوی عہد سے نافذ چلے آرہے ہیں، جس میں غیرملکیوں کو کرائے پر گھر دینے کا طریقہ کار کافی پیچیدہ رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد دستاویزات اور فارمز وغیرہ جمع یا بھرنے پڑتے ہیں، ان کی چار مختلف سطحوں کی اتھارٹیز سے تصدیق کرانا ہوتی ہے، اور یہ کام تنہا کرنا آسان نہیں۔
ڈیوڈ”آپ کو کسی ایسے شخص کی ضرورت ہوتی ہے جو اس پیچیدہ طریقہ کار میں آپ کی مدد کرسکے، یعنی کوئی ایسا برمی دوست جو قطار میں کھڑا ہوسکے یا سرکاری دفاتر میں جاسکے، یا کوئی ایجنٹ اورو نیک دل مالک مکان جو اس کام میں آپ کی مدد کیلئے تیار ہو۔ کچھ مالک مکان کافی اچھے ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ہمارے گھر میں رہنا چاہتے ہیں تو وہ طریقہ کار کو خود مکمل کرائیں گے، مگر اکثر مالک مکان ایسا کرنا پسند نہیں کرتے کیونکہ اس کیلئے کافی وقت درکار ہوتا ہے”۔
رجسٹریشن کے عمل سے ہرغیرملکی کو برما میں داخلے کے وقت گزرنا پڑتا ہے اور متعدد افراد کو سب کام ٹھیک نہ ہونے پر سزا کا ڈر ہوتا ہے۔ کیا من سن ایک مقامی وکیل ہیں۔
کیا من سن”مالک مکان خطرے کی زد میں ہوتے ہیں، انہیں انتظامیہ کی جانب سے انتظامی طریقہ کار کے دوران انتباہ یا سزا بھی مل سکتی ہے”۔
تاہم ہر قصبے میں اس معاملے کو اتنی سختی سے نہیں نمٹا جاتا، مگر قانون کی حکمرانی مکمل طور پر نہ ہونے کے باعث برمی افراد کو کسی بھی وقت مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
کیا من سن)”میرے خیال میں ایک نیا قانون متعارف کراکے پرانے قوانین کو کالعدم قرار دیدینا چاہئے۔ مگر مجھے 2012ءکے بعد سے اب تک کبھی کسی غیرملکی کے خلاف کارروائی کے بارے میں پتا نہیں چلا، یعنی اب کہہ سکتے ہیں کہ صورتحال کافی پرسکون ہوچکی ہے”۔
کئی ہفتوں بعد پال اپنے لئے ایک مکان ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئے، مگر وہ اب بھی کوئی اچھا گھر ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔
پال”میں متعدد مقامات جاچکا ہوں جن کے بارے میں لوگوں یا ایجنٹوں نے بتایا کہ وہ کرائے کیلئے خالی ہیں، مگر بھی میں وہاں گیا تو مالک مکان کا کہنا تھا کہ یہاں غیرملکی نہیں رہ سکتے، بنیادی طور پر مالک مکان غیرملکیوں سے خوفزدہ رہتے ہیں”۔
برما میں تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں مگر اب بھی متعدد افراد پرانے نظام کے تحت سزا سے خوفزدہ رہتے ہیں، کیونکہ پرانے قوانین ابھی بھی موجود ہیں۔ ڈیوڈ اس بارے میں اظہار خیال کررہے ہیں۔
ڈیوڈ”میرا نہیں خیال کہ گھروں کے مالکان قوانین سے مکمل طور پر آگاہ ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ بروکرز کو بھی قوانین سے آگاہی حاصل ہے، میرے خیال میں یہ ایجنٹ عام افراد سے تو زیادہ باخبر ہوسکتے ہیں مگر پھر بھی تمام چیزیں ان پر واضح نہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
31 |