Written by prs.adminJuly 2, 2012
(India’s Chakma tribe fight for citizenship) بھارتی چکمہ قبائل شہریت کے حصول کیلئے سرگرداں
Asia Calling | ایشیا کالنگ . International Article
بھارتی ریاست Arunachal Pradesh میں رہائش پذیر Chakma قبیلہ چھ دہائیوں سے شہریت کے حصول کی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہ لوگ 1960ءکی دہائی میں بنگلہ دیش سے بھاگ کر یہاں آئے تھے اور اب انکی تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ طویل جدوجہد کے بعد توقع ہے کہ بھارتی حکومت رواں برس ان افراد کو شہری حقوق دے سکتی ہے۔
Biswamitra Chakma، Diyun نامی گاﺅں کے کھیتوں میں دن بھر کام کرکے گھر واپس لوٹ رہے ہیں۔ انکی عمر اٹھاون برس ہے اور وہ بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے تھے، تاہم یہ بھارتی گاﺅں گزشتہ پچاس برس سے انکا گھر بنا ہوا ہے۔
(male) Biswamitra “مجھے صحیح طرح یاد نہیں کہ میں اس وقت کتنے برس کا تھا جب میرا خاندان نقل مکانی کرکے یہاں آیا۔ شاید اس وقت میری عمر آٹھ سال تھی۔ میرے ساتھ ماں، باپ، میرے چار بھائی اور بہنیں بھی یہاں آئی تھیں، مجھے یاد ہے کہ میرے والدین نے بتایا تھا کہ بنگلہ دیش میں ہمارا گھر ایک ڈیم کی تعمیر کے دوران پانی میں غرق ہوگیا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اب ہم وہاں نہیں رہ سکتے”۔
1964ءمیں Kaptai hydro-electric dam کی تعمیر کے دوران ایک لاکھ Chakma افراد بے گھر ہوگئے تھے، جن کی بڑی تعداد نے بھارت میں پناہ لی تھی۔Bimal Kanthi Chakma قبائلی رہنماءہیں، وہ اس نقل مکانی کی وجوہات بتارہے ہیں۔
(male) Bimal Kanthi Chakma “ہم بدھ مت کے ماننے والے ہیں اس لئے ہمیں بنگلہ دیش میں رہنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔برصغیر کی تقسیم سے قبل ہم بھارت کے شہر ی تھے، تاہم تقسیم کے بعد ہمارا علاقہ پاکستان کے حصے میں آیا، مذہبی منافرت بھی ایک اہم وجہ تھی جس کے باعث نے ہم بنگلہ دیش سے نقل مکانی کی۔ ہم Arunachal Pradesh بھارتی انتظامیہ کے ساتھ مشاورت کرکے آئے تھے”۔
ان افراد کو بھارتی سرحدی فورسز نے سرحد عبور کرنے کی قانونی اجازت دی، تاہم انہیں تارکین وطن کی حیثیت نہیں دی گئی، کیونکہ متعدد خاندانوں کے اہم شناختی دستاویزات گم ہوچکے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی نقل مکانی قانونی ہونے کے باوجود انہیں بھارتی شہری کا درجہ نہیں مل سکا۔
Sanjay Chakma چند ماہ قبل ایک بیٹے کا باپ بنا تھا، تاہم وہ اس کا پیدائشی سرٹیفکیٹ تاحال حاصل نہیں کرسکا۔
(male) Sanjay Chakma “میرے پاس تمام دستاویزات موجود ہیں اور میں نے تمام فارمز بھی بھرے تھے اور پھر سرکاری دفتر گیا۔ مگراس دفتر کا انچارج موجود نہیں تھا، حالانکہ دفتر کے باہر لگے نوٹس بورڈ پر صاف صاف لکھا تھا کہ منگل اور بدھ کا دن پیدائشی سرٹیفکیٹس کی رجسٹریشن کیلئے رکھا گیا ہے۔مگر افسران اس دن کبھی دفتر میں موجود نہیں ہوتے۔ ہم نے سنا ہے کہ سیاست دانوں نے افسران کو ہمارے قبیلے کیلئے پیدائشی سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے روک رکھا ہے”۔
1992ءمیں بھارتی حکومت نے Chakma افراد کو بھارتی شہریت فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، مگر ریاستی حکومت نے اس حوالے سے اقدامات ہی نہیں کئے۔ اس قبیلے سے تعلق رکھنے والے طالبعلموں کو ریاستی حکومت کے زیرتحت چلنے والے اسکولوں میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی، جبکہ وہ اپنی زمین بھی نہیں خرید سکتے۔Chakma افراد کا کہنا ہے کہ اس ریاست میں سیاسی طور پر Singpho کو غلبہ حاصل ہے اور وہ ہمارے قبیلے کو اجنبی سمجھتے ہیں جو ان کے وسائل اور مواقعوں پر قبضہ کرنے آئے ہیں۔ سنجے اس حوالے سے بتارہے ہیں۔
سنجے(male) “کئی بار میں یہ سوچ کر اداس ہوجاتا ہوں کہ میں Chakma قبیلے میں پیدا ہوا۔ کئی بار مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آخر میں Chakma کیوں ہوں، اس ریاست کے دیگر قبائل ہمیں حقیر سمجھتے ہیں۔ ہم بھی انسان ہیں مگر ہمارے انسانی حقوق تسلیم نہیں کئے جاتے۔ اگر آپ کوشش کریں تو آپ کو متعدد واقعات معلوم ہوں گے کہ کس طرح ہمارے قبیلے کے افراد کو دیگر قبائل کے لوگوں نے گلیوں میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ دفاتر میں ہمارا احترام نہیں کیا جاتا، ہم لوگوں کے پاس اس سلوک کو برداشت کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں”۔
تاہم اب صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔دو سال قبل مرکزی حکومت نے Chakma افراد کو شہریت دینے کے معاملے پر ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ گزشتہ سال جنوری میں طے کیا گیا کہ 2012ءکے آخر میں اس قبیلے کو شہری حقوق دیئے جائیں گے، تاہم ایک این جی او Committee for Citizenship Rights of the Chakma کے عہدیدار Bimal Kanthi کا کہنا ہے کہ جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔
(male) Bimal Kanthi “حکومت کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے اور ہمیں توقع ہے کہ ان مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ ابھی ہمارے قبیلے کے بہت کم لوگوں کے پاس ووٹ ڈالنے کا حق ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے قبیلے کے ہر شخص کو یہ حق ملے، اس کے علاوہ ہم انتخابات میں حصہ لینے کا حق بھی چاہتے ہیں”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply