Written by prs.adminJune 15, 2012
(India’s Billion-Citizen Data Base) بھارتی شہریوں کا ڈیٹا بیس
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Science Article
سب کو معلوم ہے کہ دنیا کا ہر شخص منفرد ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نے ملک کے ہر شخص کو الگ الگ منفرد شناختی نمبر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں Aadhaar نامی ڈیٹا بیس پر دو سال سے کام جاری ہے، جس کا مقصد ہر شخص کی جسمانی اور بائیومیٹرک تفصیلات جمع کی جاسکیں۔تاہم اس کے باعث ایک تنازعہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔
مرد، خواتین اور بچے نئی دہلی کی Jehangirpuri نامی کچی بستی کے باہر اپنے منفرد شناختی کارڈ جسے یو آئی ڈی کا نام دیا گیا ہے، کی رجسٹریشن کیلئے قطار لگائے کھڑے ہیں۔ ظہیر احمد نیا کارڈ ملنے پر خوش نظر آرہے ہیں۔
ظہیر(male) “لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کارڈ سے مجھے متعدد مراعات ملیں گی، مگر سب سے اہم امر یہ ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ میں دہلی کا شہری ہوں”۔
اس کارڈ کو بارہ ہندسوں پر مشتمل منفرد نمبر دیا گیا ہے، جبکہ اسکے ساتھ ساتھ چند بنیادی معلومات جیسے نام، تصویر، جنس اور تاریخ وغیرہ بھی اس پر درج ہے۔ اس میں ایک مائیکرو چپ بھی موجود ہے جو نیشنل بائیومیٹرک ڈیٹابیس سے منسلک ہے۔ اس ڈیٹابیس میں کارڈ کے حامل شخص کی انگلیوں کے نشانات، آنکھوں کی پتلیوں کا ریکارڈ اور چہرے کی تصویر موجود ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے لوگوں کی شناخت کا قابل اعتبار ثبوت فراہم کیا جاسکے گا، جس سے عوام کو بہتر سرکاری خدمات اور ترقیاتی پروگرامز جاری رکھنے میں مدد ملے گی۔Nandan Nelekani، Unique Identification Authority کے چیئرمین ہیں۔
(male) Nandan Nelekani “اس چیز سے ایسے کروڑوں بھارتی شہری جنھیں ابھی ریاستی سطح پر ملک کا حصہ نہیں سمجھا جاتا، کو اپنی شناخت مل سکے گی۔ انہیں منفرد شناختی کارڈ اور آن لائن تصدیقی سروس فراہم کی جائے گی ، اس طرح انہیں بینک اکاﺅنٹ کھلوانے یا کسی بھی کام کے لئے اپنی شناخت کرانے میں آسانی ہوگی۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس منصوبے کا مقصد معاشرے سے کٹے افراد کو مرکزی دھارے میں واپس لانا ہے”۔
تاہم متعدد افراد کا کہنا ہے کہ یہ شناختی نمبر شہریوں کی نجی زندگی میں مداخلت کا سبب بن سکتے ہیں۔ Usha Ramanathan ایک آزاد قانونی محقق ہیں۔
(female) Usha Ramanathan “یہ منصوبہ درحقیقت ایسا نہیں جیسا بیان کیا جارہا ہے، یہ ملک کی تمام آبادی پر کنٹرول حاصل کرنے کی خواہش ہے۔اس کے ذریعے لوگوں کو ڈرایا جارہا ہے کہ اگر انھوں نے اپنی معلومات سے حکومت کو آگاہ نہیں کیا تو انہیں سماجی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ ناقابل برداشت تصور ہے جسے کسی بھی معاشرے میں قبول نہیں کیا جاسکتا”۔
متعدد افراد کا کہنا ہے کہ بائیومیٹرک ڈیٹا مکمل طور پر قابل اعتبار نہیں، فرانزک ماہر راجیش ماتھر کا کہنا ہے کہ انگلیوں کے نشانات انتہائی آسانی سے جعلی بنائے جاسکتے ہیں، جبکہ ان کا غلط استعمال بھی ممکن ہے۔
راجیش ماتھر(male) “رجسٹریشن کے عمل کے دوران یو آئی اے نے انتہائی بلند و بانگ دعوے کئے تھے، مگر تصدیقی عمل کے دوران انھوں نے بہت کم ڈیٹا حاصل کیا، اس ادارے نے صرف ایک انگلی کے نشانات حاصل کئے اور انہیں تیس data points میں تبدیل کردیا۔ اگر میں اپنی انگلیوں کے نشانات کسی جگہ چھوڑدوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں شرپسند عناصر کو ان سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کررہا ہوں”۔
یہاں تک کہ حکومتی اراکین کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ جنوری میں وزیر داخلہ پی چدم برم نے اس پروگرام پر شدید اعتراضات کئے تھے۔انھوں نے کہا کہ یہ ڈیٹا قابل اعتبار نہیں، کیونکہ کوئی بھی شخص کسی بھی نام اور پتے کے ساتھ اس میں رجسٹر ہوسکتا ہے۔ اس اعتراض پر حکومت نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ اس منصوبے کو نئی شکل دیدی گئی۔ اب اس منصوبے کے تحت ڈیجیٹل ڈیٹابیس تیار کیا جائے گا، تاکہ دو افراد کو ایک ہی نمبر کا شناختی کارڈ جاری نہ ہوسکے۔یہ منصوبہ پارلیمنٹ سے منظور نہیں کرایا گیا، تاہم اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس طرح کے منصوبے چلانے کا اختیار حاصل ہے۔ تاہم عوامی تحفظات کو دیکھتے ہوئے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اس خیال کو مسترد کردیا، جس کے باعث منصوبے کو شدید دھچکا لگا ہے۔ انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے اداروں نے بھی ڈیٹا پر خدشات کا اظہار کیا ہے، Gopal Krishna، ایک این جی او Citizen’s Forum for Civil Liberties کے رکن ہیں۔ جو اس منصوبے کے خلاف جارحانہ مہم چلارہے ہیں۔
گوپال کرشنا(male) “تین کمپنیوں کو بائیومیٹرک ڈیٹا میں موجود غلطیوں کو درست کرنے کا کام سونپا گیا ہے، مگر درحقیقت یہ کمپنیاں اس ڈیٹا کو امریکی ادارے سی آئی اے کے ریکارڈ کا حصہ بنارہے ہیں۔یہاں تک کہ سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹرز بھی اس عمل کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔یہ لوگ ایک ایسا دروازہ بنارہے ہیں، جس کے ذریعے یہ جاسوس ان ڈیٹا کمپنیوں میں کام کرسکیں۔ اپنی ویب سائٹس پر کمپنیوں نے خود کو امریکی قومی سلامتی کا نجی نگہبان قرار دیا ہے۔جو کمپنیاں امریکی مفادات کیلئے کام کررہی ہوں وہ کس طرح ہمارے مفادات کا تحفظ کرسکتی ہیں؟”
تاہم حکومت پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں۔ یشونت سنہا اپوزیشن پارٹی بی جے پی کے رہنماءہیں۔
سنہا(male) “یہ ایک اچھا منصوبہ ہے مگر حکومت کو چاہئے کہ سب کو ساتھ لیکر اس پر کام کرے۔ تمام حکومتی اداروں کو اس عمل کا حصہ بننا چاہئے، جبکہ ڈیٹا کی سیکیورٹی کو ہر صورت میں یقینی بنایا جانا چاہئے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply