Written by prs.adminMay 24, 2012
Increasing Number of Rape Victims جنسی زیا دتیو ں میں اضا فہ
Social Issues . Women's world | خواتین کی دنیا Article
پاکستان میںخواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس پر صدائے احتجاج بھی بلند کی جاتی ہے،کم عمر بچیوں سے لے کر کالج ، یونیورسٹی کی طالبات اور ِاسکے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین کے ساتھ بھی اس نوعیت کے حادثات ہو چکے ہیں۔والدین کی بہت بڑی تعداد کم عمر بچیوں کو گھروں سے باہر بھیجتے ہوئے شدید خوف و ہراس محسوس کرتی ہے اس معاملے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی بہت بڑی تعداد قانونی اداروں سے رجوع نہیں کرتی ہے ،اس سلسلے میں مددگار ہیلپ لائن سے منسلک بشریٰ سیّد کا کہنا ہے کہ ریپ ہونے والی خواتین اگر پولیس سے مدد طلب کرتی بھی ہیں تو محض ایک تماشہ بن کر رہ جاتی ہیں: یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نوجوانوں میں سیل فون کا بڑھتا استعمال اور اسکے ذریعے کی جانے والی دوستیاں خصوصاً نوجوان لڑکیوں کیلئے تباہی کا باعث ثابت ہوتی ہیں، ایسے میں والدین کی غلط تربیت، میڈیا کا منفی کردار اور نوجوانوں میں بڑھتی بے راہ روی کم عمر لڑکیوں کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کرتی ہے: اس سلسلے میں یہ رجحان بھی سامنے آیا ہے کہ ریپ کی جانے والی خواتین کی غیر اخلاقی تصاویر اور وڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کر دی جاتی ہیں اس طرح ان خواتین کو نہ صرف بلیک میلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افرادنے غیر اخلاقی تصاویر اور وڈیوز کی فروخت کو کاروبار بنا رکھا ہے۔ پاکستان میں سائبر کرائمز کے حوالے سے نہ تو کوئی قانون موجود ہے اور ہی عام لوگ انٹر نیٹ کے ذریعے ہونے والے دھوکہ دہی سے آگہی رکھتے ہیں،حال ہی میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر خواتین کو بلیک میل کرنے کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں۔اس حوالے سے مددگار ہیلپ لائن سے منسلک بشریٰ سیّد کا کہنا ہے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد وڈیوز اورتصاویر کے ذریعے خواتین کو بلیک میل کرنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے: جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین اور اُنکے اہل خانہ بدنامی اور رسوائی کے خوف سے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور یوں مجرموں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے ،کچھ عرصے قبل کراچی شہر میں وائٹ کرولا کار کے حوالے سے کئی واقعات سامنے آئے تھے جن میں درجنوں خواتین کی حرمت پامال کی گئی لیکن جب یہ گینگ گرفتار ہوا تو زیادہ تر متاثرہ خواتین نے اس گروہ کے خلاف گواہی دینے سے انکار کر دیا : مددگار ہیلپ لائن سے منسلک بشریٰ کا کہنا ہے کہ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کے طبی معائنے سے لے کر عدالتی کارروائی تک تمام لائحہ عمل اس قدر پیچیدہ اور وقت طلب ہے کہ بیشتر خواتین ہمت ہار دیتی ہیں ایسے میں مختلف محکموںکی کرپشن کا فائدہ بہت دفعہ مجرمان کو ہوتا ہے اور وہ قانون کی گرفت سے صاف بچ نکلتے ہیں: حال ہی میں کراچی کے علاقے چاکیواڑہ میں کم عمر بچی کے ساتھ زیادتی کرنے والا ملزم کس طرح قانون کی گرفت سے بچ نکلا اس بارے میں بشریٰ سیّد بتاتی ہیں: متعلقہ اداروں کا کہنا ہے کہ اسلحے کے زور پر دن دہاڑے لڑکیوں کے اغواکی وارداتیں برائے نام ہیں جبکہ محبت اور دوستی کے نام پر خواتین کو ورغلا کر انکے ساتھ زیادتی کے واقعات زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔اسکے علاوہ ملازمت پیشہ خواتین کو افسران اعلیٰ یا ساتھی کولیگز کی جانب سے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر انھیں بلیک میل کیا جاتا ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد خواتین کو اندرون ملک یا بیرون ملک لے جا کر فروخت کر دیا جاتا ہے ۔ بنت حوا کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کچھ عرصے تو شور و غل مچتا ہے لیکن پھر ایسے ہی کسی اور سانحے تک خاموشی چھا جاتی ہے۔۔۔۔آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ معصوم لڑکیوں کو ورغلا کر انھیںمذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے والوں کا انجام کیا ہوا، زیادتی کا نشانہ بننے والی بد نصیب خواتین کس اذیت سے زمانے کا سامنا کر تی ہیں یہ جاننے کی کوشش بھی کوئی نہیں کرتا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسے مادر پدر آزاد معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاںلوگوں کی جان مال اور عزت کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | 3 | ||||
4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 | 10 |
11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 | 17 |
18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 | 24 |
25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
Leave a Reply