Written by prs.adminMay 22, 2012
(Futile Fight on Earth’s Highest Battleground) دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ پر بے مقصد لڑائی
Asia Calling | ایشیا کالنگ . Social Issues Article
134 پاکستانی فوجی اور شہری اپریل کے مہینے سے سیاچن گلیشئیر کے گیاری سیکٹر میں برفاتی تودے تلے دبے ہوئے ہیں۔ سیاچن کو دنیا کا سب سے بلند محاذ جنگ کہا جاتا ہے، جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان کافی برسوں سے جنگ جاری ہے، تاہم یہاں زیادہ تر ہلاکتیں جھڑپوں سے نہیں بلکہ موسم کی شدت کے باعث ہوتی ہے۔
لاہور کے سینٹ انتھونی گرجا گھر میں خصوصی دعائیہ تقریب کا انعقاد ہورہا ہے۔سیاچن گلیشئیر کے گیاری سیکٹر میں رواں سال اپریل میں 134 پاکستانی فوجیوں و شہریوں کے زندہ دفن ہوجانے پر پوری قوم افسردہ ہے۔ ان افراد کی بازیابی کیلئے امدادی آپریشن ڈیڑھ ماہ سے جاری ہے، تاہم اب تک کسی شخص یا لاش کو دھونڈا نہیں جاسکا۔
سطح سمندر سے چھ ہزار فٹ سے زائد بلندی پر واقع سیاچن گلیشیئر دنیا کا بلند ترین محاذ جنگ ہے۔بھارت کی جانب سے اس گلیشیئر پر قبضہ کرنے کی کوشش کے خلاف یہاںگزشتہ 28 برسوں سے پاک بھارت جنگ جاری ہے۔اس وقت دونوں ممالک کے دس سے بیس ہزار کے لگ بھگ فوجی یہاں تعینات ہیں، تاہم متعدد حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ بے مقصد ہے۔میاں نواز شریف پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر ہیں، وہ بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
نواز شریف(male) “دونوں ممالک کی افواج کیلئے چھ ہزار میٹر سے زائد بلند ی پر رہنا مشکل ہے، دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس معاملے کو اولین ترجیح کی صورت میں حل کرنا چاہئے، جیسا انھوں تجارت کے معاملے میں کیا ہے۔ اس تنازعے کا باعزت حل نکالا جانا چاہئے، جو دونوں اطراف کیلئے قابل قبول ہو”۔
سیاچن دنیا کا سب سے مہنگا محاذ جنگ بھی ہے، بھارت یہاں روزانہ آٹھ لاکھ ڈالر اپنے فوجیوں پر خرچ کررہا ہے، جبکہ پاکستانی خرچہ چھ لاکھ ڈالر کے قریب ہے، مگر یہاں متعین زیادہ تر فوجی گولیوں سے نہیں بلکہ موسم کے ہاتھوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ منفی ساٹھ ڈگری درجہ حرارت کے باعث یہاں دو ہزار سے زائد افراد شدید موسمیاتی صورتحال کی نذر ہوگئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ تنازعہ پاگل پن ہے۔
عمران خان(male) “آخر یہ دونوں ممالک یہ تنازعہ مذاکرات کے ذریعے حل کیوں نہیں کرلیتے؟ بھارت کو اس وقت غربت کا سامنا ہے تو پاکستان میں بھی بھوک بڑھ رہی ہے۔چھ ہزار فٹ پر ہونیوالی اس جنگ پر روزانہ کا خرچہ بہت زیادہ ہے، اور یہ بھی تصور کریں کہ یہاں نوے فیصد ہلاکتیں فائرنگ سے نہیں بلکہ موسم کی وجہ سے ہورہی ہیں”۔
پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی اس علاقے کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کی تجویز پیش کی ہے۔
اشفاق پرویز کیانی(male) “میرے خیال میں تو اس علاقے میں فوج کی عدم موجودگی کی متعدد وجوہات موجود ہیں، آپ گلشیئر کے علاقوں میں فائرنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے، مگر اس کے باوجود ہم یہاں 1984ءسے موجود ہیں، اس لئے نہیں کہ ہم ایسا چاہتے تھے، بلکہ اس کی وجہ یہاں بھارتی فوجیوں کی آمد تھی۔ ہم اس مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں، مگر اس کا طریقہ کار طے کرنا ہوگا۔ ہمیں اس بارے میں بات کرنی چاہئے۔ ہم پرامید ہیں کہ اس مسئلے کو حل کرلیں گے، اور میرے خیال میں اسے حل ہونا بھی چاہئے”۔
آرمی چیف کا کہنا ہے کہ فوجیوں کے قیام کے باعث یہ گلیشیئر تیزی سے پگھل رہا ہے، اور خدشہ ہے کہ اس سے پاکستانی دریاﺅں میں تباہ کن سیلاب نہ آجائے۔
کیانی(male) “یہ گلیشیئر ہمارے دریاﺅں خصوصاً دریائے سندھ کیلئے پانی کی فراہمی کا اہم ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ یہاں فوجیوں کی موجودگی سے گلشیئر کا ماحول متاثر ہورہا ہے۔ ہم اس بات کو سمجھتے ہیں کہ پانی کا انتظام کتنا اہم ہے، اس تنازعے سے صرف خطے کا ماحولیاتی نظام ہی متاثر نہیں ہورہا بلکہ پوری دنیا کے ماحولیاتی نظام پر اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں”۔
وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے یکطرفہ طور پر علاقے سے فوجی انخلاءکے امکان کو مسترد کردیا ہے۔
قمر زمان کائرہ(male) “کشمیر اور گلگت بلتستان متنازعہ علاقے ہیں،سیاچن بھی اسی کا حصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آئینی طور پر یہ علاقے پاکستان کا حصہ نہیں۔ اگر ہم عالمی دعویٰ پر قائم رہتے ہیں تو پاکستان اپنے موقف پیچھے سے نہیں ہٹے گا، ہماری افواج اور حکومت اپنے موقف پر برقرار ہیں۔ہم اپنی سرزمین کے دفاع کے لئے ہر قیمت چکانے کے لئے تیار ہیں”۔
گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت کے میڈیا گروپس کے اشتراک سے لاہور میں ایک عالمی امن کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس کے افتتاحی اجلاس سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے خطاب کیا۔
یوسف رضا گیلانی(male) “میں یہ بات اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ دونوں حکومتیں حالات معمول پر لانے کیلئے پرعزم ہیں۔ ہم اپنا بہت قیمتی وقت تنازعات میں ضائع کرچکے ہیں اور اب ہم ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
31 |
Leave a Reply