
Written by prs.adminMarch 25, 2013
Child Labour Still Rampant in Cambodia – کمبوڈین چائلڈ لیبر
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
اقوام متحدہ نے 2016ءتک چائلڈ لیبر ختم کرنے کا اعلان کررکھا ہے، تاہم کمبوڈیا میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہاں بچوں کو مزدوری کرانے والی سب سے بڑی کمپنی خود حکومتی عہدیدار کی ہے۔
اس وقت صبح کے سات بجے ہیں، کیمپونگ سپیونامی علاقے سے تعلق رکھنے والے ورکرز پنوم پین شوگر کمپنی کے کھیتوں میں گنا کاشت کرنے کیلئے آرہے ہیں۔ان میں سے بیشتر بچے ہیں، چودہ سالہ یتیم بچہ نونگ چترابھی اس میں شامل ہے۔
نونگ چترا” یہ بہت سخت کام ہے، ہم فارم میں صبح سے رات تک کام کرتے ہیں، اگر اس دوران ہمارا کام ختم نہ ہو تو پھر ہمیں جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا سربراہ ہماری کمپنی کے مالک کو ہماری شکایت بھی کردیتا ہے”۔
کمبوڈین قوانین میں چودہ یا اس سے زائد کم عمر بچوں سے مزدوری کرانے کی اجازت نہیں، جبکہ انہیں ایسا کام کرنے کی اجازت بھی نہیں جو ان کی زندگی کیلئے خطرناک اور تعلیمی سرگرمیوں روکنے کا سبب بنے۔ گنے کی کاشت میں یہ دونوں عناصر موجود ہیں۔
نونگ چترا” میں پڑھ نہیں سکتا، میں پڑھنا چاہتاہوں مگر مجھے اپنے خاندان کا سہارا بھی بننا ہے، میرا خاندان بہت غریب ہے”۔
یہ بچے شوگر کمپنی کی جانب سے زمینوں پر قبضے کا ہدف بھی بنے ہیں، اب تک ان فارمز کے قیام کے باعث ہزاروں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور ان کے پاس گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کے سوا کوئی آپش نہیں۔نونگ چتراکے والدین انتقال کرچکے ہیں، اب وہ اپنی دادی یُن سم کے ساتھ مقیم ہے۔
یُن سم “ میری زمین پر قبضہ کرلیا گیا جس کے باعث ہمارے لئے زندہ رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ دھان کے بہت سارے کھیتوں پر قبضہ کرلیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم کچھ کاشت بھی نہیں کرسکتے۔ میرا پوتا اپنا اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوگیا ہے، آج ہماری زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں بہت فکرمند ہیں”۔
اور یہ کوئی واحد کیس نہیں، 18 سال سے کم عمر پندرہ لاکھ کمبوڈین شہری کام کرنے پر مجبور ہیں۔
تیرہ سالہ چم چین کو ان کھیتوں میں کام کرنے کے لئے اپنا اسکول چھوڑنا پڑا۔
چم چین” میں روزانہ ڈھائی ڈالرز کمالیتا ہے، اسی سے ہماری زندگی آگے بڑھ رہی ہے، میں اسکول واپس جانا چاہتا ہوں، مگر یہ ناممکن لگتا ہے”۔
ٹراپنگ پین سیکینڈری اسکول کے ایک تہائی بچوں نے پڑھنا چھوڑ کر کام شروع کردیا ہے۔ اسکول ڈائریکٹراوین وانا اس بارے میں بتارہی ہیں۔
اوین وانا” میرے خیال میں ہمارے طالبعلموں کو شدید معاشرتی مسائل کا سامنا ہے، انہیں اپنے خاندانوں کیلئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے وہ اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ تعلیمی سلسلہ جاری بھی رکھتے ہیں تاہم انہیں پڑھنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بیشتر بچے اسکول چھوڑنے کے بعد واپس نہیں آتے”۔
گزشتہ سال یورپین پارلیمنٹ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر کمبوڈین زرعی مصنوعات پر پابندی کی سفارش کی، رواں برس جنوری میں کمبوڈین اپوزیشن نے وزیراعظم سے پنوم پین شوگر کمپنی کی جانب سے بچوں سے مزدوری کرانے پر سخت اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا، کمپنی کے ایک نمائندے نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا کہ ہم نے بچوں کو کام پر رکھنا بند کردیا ہے۔
کمپنی مین” ہم جانتے ہیں کہ یہ غیرقانونی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں اپنے کھیتوں میں کام کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتے، بلکہ یہ انکا اپنا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہماری کمپنی ان کے اسکول چھوڑنے پر افسوس کا اظہار کرتی ہے، ابھی ہم اعلان کرنے والے ہیں کہ سولہ سال سے کم عمر بچے ہمارے کھیتوں میں کام نہیں کرسکتے”۔
کمپنی نے ایک اعلامئے کے تحت اپنے کنٹریکٹرز کو پابند کیا ہے کہ اگر اب کوئی اٹھارہ سال سے کم عمر بچہ کام کرتا ہوا پکڑا گیا تو ان ٹھیکیداروں پر بارہ ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
تاہم اس کے باوجود نونگ چترا بدستور کھیتوں پر کام کررہا ہے۔ یُن سم اپنے پوتے کی گھرواپسی کا انتظار کررہی ہیں۔
یُن سم“ہمارے پاس کھانے کے لئے پیسے نہیں، اس لئے میں اپنے پوتے کی واپسی کا انتظار کررہی ہوں۔ جب وہ پیسے لیکر آئے گا تو ہم کچھ کھانے کو خریدسکیں گے۔ ہمارے لئے زندگی بہت مشکل ہوچکی ہے، میں اپنے پوتے کو اسکول واپس بھیجنا چاہتی ہوں، مگر وہ اس کے لئے تیار نہیں۔ اسکا کہنا ہے کہ اگر اس نے کام چھوڑ دیا تو ہم زندہ نہیں رہ سکیں گے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | 2 | |||||
3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 | 9 |
10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 | 16 |
17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 | 23 |
24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 | 30 |
31 |