Blind Sisters نا بینا بہنیں

غربت و افلاس کا شکار مجبور عوام کیلئے پیٹ بھرنا اور تن ڈھانپناہی بہت بڑی عیاشی ہے ایسے میں اگر پورا خاندان کسی بیماری کا شکار ہو جائے تو غریب کے پاس خود کشی کے سوا کیا چارہ ہو گا۔اوباوڑو کے نواحی گاﺅںجھنگل ملک میں رہائش پذیرایک ہی خاندان کی چار لڑکیاں نامعلوم بیماری کا شکار ہیں، نوجوانی کی عمر میں جب سنہرے سپنے آنکھوں میں آبستے ہیں ،ان بہنوں کی بینائی چلی جاتی ہے یکے بعد دیگرے چاروں بہنیں 18سال کی عمر کو پہنچتے کے بعددیکھنے سے معذور ہو چکی ہیں۔
بوڑھے ماں باپ نے چند ایکڑ زمین بیٹیوں کے علاج کیلئے فروخت کر ڈالی اور اب یہ خاندان جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کیلئے محلے والوں کے صدقات و خیرات پر گزارا کررہا ہے۔جس عمر میں بیٹیوں کیلئے اچھے بر ڈھونڈنے کی فکروالدین کو پریشان رکھتی ہے اس عمر میںان لڑکیوں کے والدین انکے علاج کیلئے پریشان ہیں،ماںفکرمند ہے کہ ہمارے بعد ہماری بچیوںکا کیا مستقبل ہو گا اور باپ پریشان کہ انکے علاج کیلئے رقم کہاں سے لائے؟نابینالڑکیوں کے والد محمد حسن کا کہنا ہے کہ بچپن میں یہ بالکل ٹھیک تھیں لیکن جیسے ہی نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا اِنکی بینائی چلی گئی:
جبکہ والدہ کا کہنا ہے کہ قبول صورت لڑکیوں کو رشتے نہیں ملتے تو ہماری نابینا بیٹیوں سے کون شادی کرے گا،بہنوں میں سب سے بڑی40سالہ شفعت بی بی کا کہنا ہے:
علاقے میں مصروف عمل ایک سماجی ورکر کا کہنا ہے کہ اس خاندان کے حالات دیکھ کر رونا آتا ہے ، بوڑھے ماں باپ بچیوں کے علاج کیلئے زمین تک فروخت کر چکے ہیں،ان لڑکیوں کی شادی کی کوئی سبیل ہو یا انکا علاج کروایا جائے تو شاید اِنکے والدین کو بھی سکون نصیب ہو۔کسپمرسی کا شکار یہ مجبور خاندان اس سے قبل بھی میڈیا کے ذریعے مدد کی اپیل کر چکا ہے،زندگی کی روشنیاں ان چاروں بہنوں کیلئے گل ہو چکی ہیں ،نفسانفسی کے اس دور میں جب ہرکوئی اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کی فکرمیں مبتلا ہے ،ہے کوئی جو اِن مظلوم لڑکیوںکی فریاد سنتے ہوئے باتوں اور تسلیوں سے بڑھ کر اِن کے لئے کچھ کرسکے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *