Written by prs.adminSeptember 14, 2012
(A New Debate on India’s Death Penalty)بھارت میں سزائے موت کا قانون
Asia Calling | ایشیا کالنگ . General Article
بھارتی سپریم کورٹ نے ممبئی حملوں کے الزام میں گرفتار اجمل قصاب کی پھانسی کی سزا کو برقرار رکھا ہے، جس کے بعد بھارت میں سزائے موت کے خاتمے کیلئے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔
اجمل قصاب کو ممبئی کی عدالت نے 2010ءمیں سزائے موت کا حکم سنایا تھا، گزشتہ برس مہاراشٹر ہائیکورٹ نے ماتحت عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا، جبکہ اب سپریم کورٹ نے بھی اجمل قصاب کی اپیل مسترد کردی ہے۔Gopal Subramanium سپریم کورٹ میں حکومتی پراسیکیوٹر ہیں۔
(male) Gopal Subramanium “یہ مقدمہ مکمل طور پر پیشہ وارانہ بنیادوں پر چلایا گیا۔ ہمیں یہی فیصلہ سامنے آنے کی امید تھی، یہ آئینی اور قانونی عمل کی فتح ہے۔ میرے خیال میں بھارت کو فخر محسوس کرنا چاہئے کہ جمہوری ملک ہونے کے ناطے ہم ہر ملزم کو اپنی صفائی کا مکمل موقع فراہم کرتے ہیں۔ عدالتیں کسی بھی ملزم کو اس وقت تک سزا نہیں ہونے دیتیںجب تک وہ اپنا موقف پیش نہ کردے”۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مختلف بھارتی شہروں میں سینکڑوں افراد نے مظاہرے کرکے اجمل قصاب کیخلاف نعرے لگائے۔ نئی دہلی میں مظاہرین نے اجمل قصاب کے پتلوں کو پھانسی پر چڑھایا اور ملزم کو بغیر کسی تاخیر کے سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ چمن بھائی بھی ان افراد میں سے ایک ہیں۔
بھائی(male) “اب اسے مزید وقت نہیں دیا جانا چاہئے، حکومت کو اسے دس روز کے اندر پھانسی پر لٹکا دینا چاہئے۔ ہم اب کس بات کا انتظار کررہے ہیں، سب کو معلوم ہے کہ اس نے کس سفاکی سے معصوم لوگوں کو قتل کیا۔ ہر چیز ثابت ہوچکی ہے، ہمیں فوری طور پر اسے پھانسی پر لٹکا دینا چاہئے، ایسا نہ ہوا تو ہمیں مزید حملوں کیلئے تیار رہنا ہوگا”۔
ممبئی میں 2008ءکے حملوں کے متاثرین بھی سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوش ہیں اور اس پر جلد از جلد عملدرآمد چاہتے ہیں۔ Eknath Omble، اجمل قصاب کو پکڑنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والے پولیس اہلکار Tukaram Omble کے بھائی ہیں۔
(male) Omble “اسے پھانسی پر لٹکایا جانا چاہئے، اس طرح کے مجرم کو زندہ رہنے کا حق نہیں۔ اس نے میرے بھائی کو قتل کیا اب اس کے مرنے کی باری ہے”۔
بیشتر سیاسی جماعتوں نے بھی عدالتی فیصلے کا خیرمقدم کیا اور بھارتی صدر پر زور دیا ہے کہ اجمل قصاب کی رحم کی اپیل مسترد کردی جائے۔ اس وقت اجمل قصاب کی رحم کی اپیل صدر کے پاس زیرالتوا ہے،بھارت میں صدر ہی کسی شخص کی سزائے موت پر عملدرآمد یا اسے عمر قید میں تبدیل کرنے کا حتمی اختیار رکھتے ہیں۔ وزارت داخلہ نے واضح کیا ہے کہ اس نے صدر کو اجمل قصاب کی درخواست مسترد کرنے کی سفارش کی ہے۔تاہم انسانی حقوق کے ادارے چاہتے ہیں کہ بھارتی صدر اجمل قصاب کی درخواست قبول کریں اور سزائے موت کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ کویتا شری واستو ایک این جی او People’s Union For Civil Liberties کی رکن ہیں۔
شری واستو(female) “ہر نسل اور ہر طبقہ فکر کو قوانین میں بہتری سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہے، بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست کہتا ہے، اسے ریاست کو مزید مہذب بنانا چاہئے۔ آخر ہمیں اجمل قصاب کی زندگی ختم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ 26 نومبر 2008ءکی قتل و غارتگری افسوسناک تھی مگر قصاب کو سزا سے ہمیں کوئی تحفظ نہیں مل جائے گا۔ ہم بھارت میں سزائے موت کا مکمل طور پر خاتمہ چاہتے ہیں”۔
سزائے موت کے مخالفین کا کہنا ہے کہ قانون کی کتابوں میں اس کا مکمل خاتمہ کیا جانا چاہئے، Mani Shankar Aiyer حکمران جماعت کانگریس کے سنیئر رہنماءہیں۔
(male) Mani Shankar Aiyer “ہم وحشی ہیں یا مہذب؟ تہذیب نے دنیا بھر میں وحشت پر قابو پالیا ہے، تاہم بھارت میں اب تک ایسا نہیں ہوسکا۔اکیسویں صدی کو اب ایک دہائی کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر اب بھی ہمارا ملک ان 23 ممالک میں شامل ہیں جہاں سزائے موت کا قانون موجود ہے۔ ہم اب بھی لوگوں کی زندگیاں ختم ہوتے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں”۔
اب تک دنیا بھر میں سو سے زائد ممالک میں سزائے موت کا خاتمہ ہوچکا ہے، بھارت میں اگرچہ سزائے موت کا قانون موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں کہا ہے کہ یہ سزا انتہائی خاص مواقعوں پر ہی دی جانی چاہئے، مجموعی طور پر گزشتہ سترہ برس میں صرف ایک شخص کو ہی پھانسی پر لٹکا گیا ہے، تاہم سیاسی کالم نگار Swapan Dasgupta کا کہنا ہے کہ سزائے موت کا خاتمہ اتنا آسان نہیں۔
(male) Swapan Dasgupta “آپ انسانی رویوں کو جتنا بھی اخلاق کے دائرے میں لے آئیں تاہم لوگوں کے جذبات کو ختم کرنا آسان نہیں۔یہی وجہ ہے کہ میرے خیال میں لوگوں کی بڑی اکثریت انتہاپسندانہ اقدامات جیسے سزائے موت کے حق میں ہے۔ تاہم بھارتی قانونی نظام میں یہ ضروری نہیں کہ ملزمان کو یہی سزا سنائی جائے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |
Leave a Reply