Written by prs.adminJuly 14, 2013
A Long Battle Against India’s Dam Project – بھارتی ڈیمز کے خلاف احتجاج
Asia Calling | ایشیا کالنگ Article
بھارتی ریاستی مدھیہ پردیش میں ہزاروں افراد ایک ڈیم کی تعمیر کے باعث اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں، اب یہ افراد مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ اسی بارے میں سنتے ہیں آج کی رپورٹ
دریائے نرمدا کے کنارے پر مقیم ہزاروں خاندان ایک طویل جدوجہد میں مصروف ہیں، اور اس دریا پر ڈیم کی تعمیر کے باعث گھروں سے بے دخل ہونے والے افراد احتجاجی تحریک چلارہے ہیں۔
مظاہرین میں خواتین زیادہ تعداد میں موجود ہیں، ان میں سے ایک 58 سالہ سکو بائی بھی شامل ہیں۔
سکو”تعمیراتی سائٹ کی صورتحال بہت خراب ہے، ہمارے پاس علاج کیلئے ہسپتال نہیں، ہمارے بچے کیلئے یا دیگر سہولیات دستیاب نہیں۔ ہمارے گھر اور زمینیں دریا برد ہورہے ہیں، ہمیں متعدد مسائل کا سامنا ہے مگر کسی کو ہماری پروا ہی نہیں”۔
نرمدا بھارت کا پانچواں بڑا دریا ہے، اور اس خطے کی زراعت اور اقتصادی وسائل کیلئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ حکومت نے اس دریا پر بجلی کے حصول کیلئے پانچ ڈیموں کی تعمیر شروع کی ہے، تاکہ پانچ لاکھ گھروں کو بجلی میسر آسکے، جبکہ زراعت اور پینے کیلئے پانی کا ذخیرہ کیا جاسکے۔مگر ان منصوبوں کے باعث ہزاروں افراد اپنے گھروں اور زمینوں سے محروم ہوگئے ہیں، اور دیگر افراد کی طرح سکو کو لگتا ہے کہ انہیں مناسب معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔
سکو”ہم حکومت سے اپنی زمین کے بدلے کم از کم پانچ ایکڑ زمین چاہتے ہیں، ورنہ ہم اپنی جگہ نہیں چھوڑیں گے اور اپنے گھر گرنے نہیں دیں گے۔ ہم خود کو پانی میں ڈبو دیں گے، ہم حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں کم از کم دس ہزار ڈالر فی ایکڑ معاوضہ دے۔ اس کے بغیر ہم کیسے زندہ رہ سکیں گے”۔
گزشتہ برس کچھ دیہاتیوں نے دو ہفتے تک واٹر احتجاج کیا، یہ لوگ روزانہ بیس گھنٹے تک خود کو گلے تک پانی میں ڈبوئے رکھتے تھے۔سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر ڈیموں میں پانی کی سطح دو میٹر تک بلند ہوئی تو اس سے پچاس ہزار سے زائد افراد کے گھر اور زمینیں ڈوب جائیں گے۔ دو سال قبل سپریم کورٹ نے مدھیہ پردیش حکومت کو ڈیمز منصوبوں کے متاثرین کی بحالی نو کا حکم دیا تھا۔ الوک اگروال ایک مقامی این جی اونرمدا موومینٹ سے تعلق رکھتے ہیں، انکا کہنا ہے کہ وہ حکومت پر عدالتی احکامات پر عملدرآمد کیلئے دباﺅ ڈال رہے ہیں۔
الوک اگروال”بحالی نو کی پالیسی بالکل واضح ہے، بے دخل افراد کو زمین کے بدلے زمین دی جائے گی اور انہیں بحالی نو کیلئے دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی 2011ءمیں تسلیم کیا تھا کہ بحالی نو کی پالیسی کے تحت اس علاقے کے نوے فیصد افراد کو مناسب معاوضہ نہیں دیا گیا اور انکی دوبارہ بحالی نو نہیں کی گئی”
عدالتی احکامات کے تحت ریاستی حکومت نے حال ہی میں ایک پیکج کا اعلان کیا، جس کے تحت جلد اپنے گھروں کو چھوڑ دینے والے افراد کو ساڑھے چار ہزار ڈالرز دیئے جائیں گے، جبکہ کاشتکاروں کو فی ایکڑ زمین کے عوض ساڑھے چار ہزار ایکڑ ملیں گے۔ کچھ دیہاتیوں کو تو یہ رقم ملی ہے مگر بیشتر کو یا تو بہت کم معاوضہ دیا گیا ہے یا بالکل ہی نہیں دیا گیا۔ گوگل کالابائی نامی گاﺅں سے تعلق رکھتی ہیں۔
کالابائی”حکومت ہمیں فی ایکڑ صرف 3600 ڈالرز دینا چاہتی ہے، جو کہ مارکیٹ ریٹ سے کم ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ حکومت ڈیم کا منصوبہ ترک کرکے ہماری زمینوں کو بحال کرے”۔
جگدیش سنگ نارنگ کا تعلق بھاورلے گاﺅں سے ہے، انکا کہنا ہے کہ انہیں زبردستی حکومت سے ڈیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔
جگدیش سنگھ”مقامی انتطامیہ نے ہم سے فارم پر کرنے کا کہا، تاکہ ہم عدالت سے رجوع کرکے حکومت سے مزید زرتلافی حاصل نہ کرسکیں۔ یہ اس قسم کا خط تھا جس میں کہا گیا تھا کہ متاثرہ افراد معاوضے سے مطمئن ہیں، متعدد افراد نے انتظامیہ کے دباﺅ کے باعث اس پر دستخط کردیئے، تاہم کافی لوگوں کو کسی قسم کا معاوضہ نہیں ملا، حالانکہ ان کے گھر اور زمینیں غرق ہوگئیں، ہمیں متعدد مشکلات کا سامنا ہے”۔
بچے بھی اس صورتحال میں بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں،سبھاش پاٹیل ایک پنچائیت کے سابق سربراہ ہیں۔
سبھاش”ڈیموں کی تعمیر سے قبل ہمارے گاﺅں سے اسکول صرف تین کلومیٹر دور واقع تھا، مگر اب وہ بہت دور ہوگیا ہے، کم از کم چالیس کلومیٹر، ہم اپنے بچوں کو شہر نہیں بھیج سکتے، کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں۔ حکومت نے ہمیں دھوکہ دیا اور ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا”۔
یہ احتجاج مدھیہ پردیش کے ریاستی انتخابات کے موقع پر ہورہا ہے اور مظاہرین کو توقع ہے کہ اس موقع پر وہ حکومت اپنے وعدے پورے کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔ الوک اگروال اس حوالے سے اظہار خیال کررہے ہیں۔
الوک”ہم یہ جنگ اختتام تک جاری رکھنے کیلئے تیار ہیں، حکومت کو ہمارے مطالبات ماننے ہوں گے یا انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہزاروں متاثرہ افراد ان انتخابات میں حکومت کے خلاف ووٹ ڈالیں گے”۔
You may also like
Archives
- March 2024
- February 2024
- January 2024
- September 2023
- July 2023
- March 2023
- February 2023
- January 2023
- April 2022
- March 2022
- February 2022
- September 2021
- August 2021
- July 2021
- April 2021
- February 2021
- June 2020
- May 2020
- April 2020
- March 2020
- February 2020
- December 2019
- October 2019
- September 2019
- August 2019
- July 2019
- May 2019
- April 2019
- March 2019
- February 2019
- January 2019
- December 2018
- November 2018
- October 2018
- September 2018
- August 2018
- June 2018
- December 2017
- November 2017
- October 2017
- September 2017
- March 2017
- February 2017
- November 2016
- October 2016
- September 2016
- July 2016
- June 2016
- April 2016
- March 2016
- February 2016
- January 2016
- December 2015
- November 2015
- October 2015
- September 2015
- August 2015
- June 2015
- May 2015
- March 2015
- February 2015
- January 2015
- November 2014
- August 2014
- July 2014
- June 2014
- May 2014
- April 2014
- March 2014
- February 2014
- January 2014
- December 2013
- November 2013
- October 2013
- September 2013
- August 2013
- July 2013
- June 2013
- May 2013
- April 2013
- March 2013
- February 2013
- January 2013
- December 2012
- November 2012
- October 2012
- September 2012
- August 2012
- July 2012
- June 2012
- May 2012
- April 2012
- March 2012
- February 2012
- December 2011
- October 2011
- August 2011
- July 2011
- June 2011
- May 2011
- April 2011
- March 2011
- February 2011
- January 2011
- December 2010
- November 2010
- October 2010
- September 2010
- August 2010
- July 2010
- June 2010
- May 2010
- April 2010
- March 2010
- February 2010
- January 2010
- December 2009
Calendar
M | T | W | T | F | S | S |
---|---|---|---|---|---|---|
1 | ||||||
2 | 3 | 4 | 5 | 6 | 7 | 8 |
9 | 10 | 11 | 12 | 13 | 14 | 15 |
16 | 17 | 18 | 19 | 20 | 21 | 22 |
23 | 24 | 25 | 26 | 27 | 28 | 29 |
30 | 31 |